حضرت علامہ سید ارشد سعید کاظمی شیخ الحدیث جامعہ انوارالعلوم کی شخصیت اور ان کی علمی خدمات پر کچھ لکھنے سے قبل ان کے خاندانی پس منظر کا جاننا ضروری ہے۔
امروہہ: بھارت ضلع مراد آباد کا ایک مشہور ومعروف قصبہ اور اب بڑا شہر ہے۔ برصغیر کی تاریخ میں سادات امروہہ بہت مشہور ہیں۔ یہ قصبہ ہمیشہ سے اہل علم اور سادات کرام کا مرکز رہا ہے۔ امروہہ میں سادات کرام کے بہت سارے معزز ومحترم گھرانے آباد ہیں جن میں سے نقوی، زیدی، جعفری اور کاظمی سادات بطور خاص زیادہ معروف ومشہور ہیں۔
جس شخصیت کا ذکر خیر کرنا مقصود ہے ان کا تعلق کاظمی سادا ت سے ہے۔ جن کا حسب ونسب حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ ان کے جد امجد حضرت سید احسن دہلوی رحمۃ اللہ علیہ عراق سے ہجرت کر کے دلی تشریف لائے۔ دلی میں ان کے علم وفضل کا شہرہ رہا ہے۔ پھر حضرت سید احسن دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند حضرت سید محمد اشرف رحمۃ اللہ علیہ جو کہ بہت بڑے عالم، متقی اور عابدوزاہد تھے وہ دہلی سے امروہہ منتقل ہوئے۔
حضرت سید محمد اشرف رحمۃ اللہ علیہ علوم شریعت وطریقت میں کامل دسترس رکھتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ فن سپہ گری میںبھی مہارت تامہ کے حامل تھے۔ آپ نے بے شمار تشنگانِ علم کو سیراب
فرمایا۔ اس دور کے تقاضوں کے مطابق آپ نے سپہ گری اور فنِ عسکریت کی تربیت دے کر نوجوانوں کو جہاد کیلئے تیار کیا پھر آپ کے بیٹے حضرت شاہ سیف اللہ رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے صوفی بزرگ اور علوم شرعیہ کے ماہر مانے جاتے تھے۔
ان کے بعد ان کے صاحبزادے خواجہ شاہ حنیف اللہ رحمۃ اللہ علیہ منصبِ علم وفن پر جلوہ گر ہوئے۔ آپ نے مدتوں شریعت مطہرہ کا درس دیا علم کی ترویج واشاعت میں آپ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں اپنے علاقہ کے بزرگ ترین شیخ طریقت شمار ہوتے تھے۔
آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے سید وصی اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے تبحر علمی میں اپنی مثال آپ تھے اور قرآن کریم کے جید حافظ تھے حضرت غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کے دادا جا ن حضرت سید یوسف علی رحمۃ اللہ علیہ بھی بحر العلوم شمار ہوتے تھے۔ نیز حضرت غزالی زماں کے والد ماجد حضرت سید مختار احمد کاظمی رحمۃ اللہ علیہ علوم ظاہری وباطنی اور شریعت وطریقت میں بلند مقام پر فائز تھے۔ آپ کے دیگر برادران حضرت حافظ علی احمد اثر اور سید حبیب احمد اُفق دونوںحضرات فارسی کے بہت بلند پایہ شاعر اور اردو ادب کے نہایت اعلیٰ درجہ کے ادیب ہونے کے علاوہ علوم دینیہ پر بھی بخوبی دسترس رکھتے تھے۔
ان حضرات میں سے حضرت سید حبیب احمد افق کاظمی رحمۃ اللہ علیہ ملتان بھی تشریف لائے اور
جامعہ اسلامیہ عربیہ انوارالعلوم میں عرصہ دراز تک پہلے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ خاص طور پر فارسی میں ان کی مہارت قابل رشک تھی۔
حضرت سید مختار احمد کاظمی رحمۃ اللہ علیہ بہت خاموش طبع اور متواضع انسان تھے۔ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے بزرگوں سے آپ کو خاص فیض پہنچا۔ اس کے علاوہ طریقت کے باقی سلاسل میں بھی آپ مجاز تھے۔
شجرئہ طریقت میں چشتی، قادری، نقشبندی اور دیگر سلاسل میں بھی آپ بیعت کرتے تھے۔ مگر سلسلہ چشتیہ زیادہ محبوب تھا آپ کو اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹوں سے نوازا تھا۔ جن میں سے سب سے بڑے سید محمد خلیل کاظمی خاکی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم قطب امروہہ حضرت علامہ سید مختار احمد کاظمی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ تکمیل کے لئے مدرسہ عالیہ رامپور میں داخلہ لیا آپ علم حدیث اور فقہ میں انتہائی مہارت کیساتھ حافظ قرآن، سبعہ عشرہ کے عمدہ قاری اور قادر الکلام شاعر بھی تھے۔
’’نورونکہت‘‘ کے نام سے موسوم آپ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ آپ کی بلند پایہ شاعری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ جامعہ انوارالعلوم کے پہلے صدر مدرس اور شیخ الحدیث تھے آپ نے غزالی وقت، رازی عصر حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی جیسا علم وعرفان کا چمکتا ہوا ستارہ عطا کیا۔ کہ
جس کی ضیاپاشیوں سے ایک جہان منور ہے۔ آپ کا وصال بحالت روزہ ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۹۰ مطابق 28نومبر 1970ء بروز ہفتہ صبح چھ بجے بعد نماز اشراق جائے نماز پر ہوا۔
حضرت علامہ سید محمد خلیل کاظمی خاکی رحمۃ اللہ علیہ کے برادرِ اصغر، مرید خاص اور ان کے علم وعرفان کے امین ابو النجم حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ ۴ ربیع الثانی ۱۳۳۱ھ مطابق 13مارچ 1913ء بروز بدھ صبح 4بجے امروہہ ضلع مراد آباد میں متولد ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب 29واسطوں سے حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ اور 44واسطوں سے آپ کا شجرہ نسب حضور سرورِ کائنات، فخر موجودات ، سید عالم ﷺ سے جاملتا ہے۔
آپ کے والد بزرگوار سید مختار احمد کاظمی رحمۃ اللہ علیہ آپ کی خوردسالگی میں اپنی ٹوپی اتار کر آپ کے سر پر رکھتے اور اپنا دست مبارک پھیرتے ہوئے فرماتے کہ دیکھنا میرا یہ بیٹا بڑ اہو کر بہت ذہین عالم دین بنے گا۔
آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز اپنی والدہ محترمہ سے کیا۔ کیونکہ آپ کے والد محترم آپ کو چھ برس کی عمر میں داغ مفارقت دے گئے پھر آپ کے برادر اکبر حضرت علامہ سید محمد خلیل کاظمی محدث امروہوی نے آپ میں غیر معمولی استعداد اور روحانی صلاحیتوں کو دیکھ کرآپ کی ایسی علمی وعملی، ظاہری وباطنی تربیت فرمائی کہ آپ علم وعرفان کے آفتاب بن کر چمکنے لگے اور اپنی ضیاباریوں سے ایک جہاں کے ذروں کو رشک قمر بنادیا۔
آپ نے سولہ ؍سترہ برس کی عمر مبارک میں تمام علوم وفنون پر پوری دسترس حاصل کر لی اور ۱۳۴۸مطابق 1929ء میں مدرسہ محمودیہ امروہہ سے سند فراغ حاصل کی۔
حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی نے صدر الافاضل سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اﷲعلیہ اورحضرت مولانا نثار احمد کانپوری رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر مشاہیر وقت کی موجودگی میں فخرمشائخ ہند حضرت سیدعلی حسین شاہ اشرفی کچھوچھوی رحمۃ اﷲعلیہ کے مبارک ہاتھوں سے دستارِفضیلت زیب سر فرمائی۔ اسی موقع پر آپ نے اپنے برادرِاکبرو استاذمکرم حضرت علامہ حافظ سیدمحمدخلیل کاظمی رحمۃ اللہ علیہ محدث ِامروہہ کے دست حق پرست پربیعت کی اورسلاسل اربعہ میں اجازت وخلافت حاصل کی۔
حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ بے حد ذہین اور فطین تھے آپ علم شریعت کے آفتاب وماہتاب تھے اور آسمان علم وفضل پر مہروماہ بن کر جلوہ گر ہوئے اور آپ نہ صرف رموز حقیقت سے آگاہ تھے بلکہ مشکل مسائل کے معانی ومفاہیم اور معارف ومطالب بیان کرنے میں مکمل ملکہ ومہارت اور عبور رکھتے تھے۔ آپ علوم ومعرفت کا سمندر تھے۔ آپ کی ذات سرچشمہ علوم وفیوض تھی۔ آپ کی ذات گرامی ایک ایسی زندہ کتاب تھی جس میں تفسیر، حدیث، فقہ اور ادب وغیرہ کوئی ایساعلم نہ تھا جس میں آپ کو ید طولیٰ حاصل نہ ہو اور بالخصوص تفسیر قرآن وحدیث شریف میں آپ کو جو مہارت وملکہ حاصل تھا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ فیض مصطفوی ﷺ کے امین اور علوم نبوی ﷺ کے حقیقی ترجمان اور پاسبان تھے۔
حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ صحیح معنوں میں فخر علم و آگہی، فراست کے بحر بیکراں، عشق رسالت ﷺ میں غرقاب طالبان علم وحکمت کے امام واستاد، عابدوں، زاہدوں اور صوفیوں کے رہنما اور پیشوا، صراطِ مستقیم کی علامت وپہچان ، امام غزالی ورازی کے علوم کے جامع، شریعت وطریقت کے مجمع البحرین حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کی تمام عمر مبارک درس وتدریس رشدو ہدایت، افتاء اور تالیف وتصنیف میں بسر ہوئی۔ آپ کو حضور آقا کریم ﷺ سے والہانہ عشق ومحبت تھی، ذکر وفکر کی ہر مجلس میں تصور رسالت مآب ﷺ سے ذہن شاداب رہتا تھا۔ آپ نے دین مبین کے ہر گوشے اور ہر شعبے میں محبت رسول ﷺ کو سمو دیا عشق ومحبت کی پاکیزہ لطافتوں کو جن لوگوں نے بدعت کا نام دیا آپ نے انہیں سنت وبدعت کا فرق سمجھایا، ذکر وفکر اور علم وعمل کے ہر پہلو میں عظمت رسول ﷺ کو اجاگر کیا۔
حضرت علامہ قبلہ کاظمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ کی ایک طویل فہرست ہے۔ جو اطراف واکنافِ عالم دین اسلام کی عظیم خدمت میں ہمہ وقت مصروف عمل ہیں آپ کو سلسلہ عالیہ چشتیہ، قادریہ، اور سہروردیہ میں اجازت بیعت وخلافت حاصل بھی۔
آپ کے تلامذہ کی طرح حلقہ مریدین بھی بے حد وسیع ہے اور پاکستان سمیت دنیا کے ہر علاقے میں آپ کے مریدین ومعتقدین پھیلے ہوئے ہیں استاذ العلماء والفضلاء، فخرملت اسلامیہ، فقیہ
العصر، جامع المعقول والمنقول، وسیع النظر فقیہہ، آفتاب علم وحکمت، علم وعمل کے عظیم پیکر، محدث اعظم پاکستان، آسمان ولایت کے قطب الاقطاب، اسلام کے عظیم مبلغ، تاجدار علم ومعرفت، مخدوم العلماء والمشائخ حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی قدس سرہ العزیز۲۵رمضان المبارک ۱۴۰۶ھ مطابق 4جون 1986ء بروز منگل بوقت افطاری اس دار فانی سے رخصت ہوئے بیشک وہ ایک مفسر، محدث، فقیہہ، مصنف، خطیب، مدرس، مناظر، صوفی،پیر اور قومی ومذہبی اور ملی رہنما تھے۔ انہیں رازی دوراں، غزالی زماں، بیہقی وقت کے القاب سے یاد کیا جاتاہے۔ درحقیقت انہیں خالق کائنات نے ان تمام خوبیوں سے نوازا تھا جن کا ذکر ان سطور میں کیا گیا ہے۔ میں نے اگرچہ اختصار سے تحریر کیا ہے ورنہ حضور غزالی زماں قدس سرہٗ کے اوصاف وکمالات حدوشمار سے فزوں ترہیں۔ انہوں نے اپنے فرزند عزیز، مسند درس کے امین، فاضل نوجوان اور علوم علامہ کاظمی قدس سرہ کے راز دان علامہ سید ارشد سعید کاظمی مدظلہٗ کو ہمہ جہت جامع بنایا اور جملہ خوبیوں سے مشرف فرمایا۔
حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی قدس سرہٗ ۱۳۴۹ھ مطابق 1930ء میں لاہور تشریف لائے۔ یہاں آپ کو حضرت علامہ سید محمد دیدار علی شاہ صاحب الوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت علامہ سید ابوالحسنات محمد احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مفتی اعظم ابوالبرکات سید احمد رحمۃ اللہ علیہ جیسی ہستیوں کی صحبت میسر آئی۔ آپ لاہور کی تاریخی اور قدیم درسگاہ جامعہ نعمانیہ دیکھنے گئے وہاں حضرت علامہ حافظ محمد جمال رحمۃ اللہ علیہ اصولِ فقہ کی معروف کتاب ’’مسلم الثبوت‘‘ کا درس دے رہے تھے، آپ درس سننے کے لئے بیٹھ گئے۔ جب آخر میں طلبہ سے
سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ نے بھی اس میں حصہ لیا۔ آپ کی علمی قابلیت اور ذہانت نے علامہ حافظ محمد جمال رحمۃ اللہ علیہ کواس قدر متاثر کیا کہ بعد میں انہوں نے تفصیلی گفتگو کر کے آپ کو جامعہ میں منصبِ تدریس پر فائز ہونے کی پیشکش کی جسے آپ نے قبول فرمالیا۔ آپ مسند تدریس پر رونق افروز ہوئے تو آپ کے علمی جاہ وجلال کا جلد ہی دور دور تک چرچا ہو نے لگااور شیدائیان علم گروہ درگروہ یہاں آنے لگے متفرق علوم وفنون میں راسخ ملکہ اور تدریس کی خداداد صلاحیت کا انداز اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے جامعہ نعمانیہ لاہور میں جب پڑھانا شروع کیا تو بیک وقت 28اسباق پڑھاتے تھے۔ دورانِ تعلیم اسباق پڑھانے کے تجربے نے جامعہ نعمانیہ میں آپ کی تدریس کا مزید سکہ بٹھا دیا۔ بعد میں کچھ عرصہ تک اپنے شیخ طریقت کی سرپرستی میں مدرسہ محمدیہ حنفیہ امروہہ میں تدریس کی۔ یہاں کئی فرق باطلہ کے علماء سے کامیاب مناظرے کئے جن میں مولوی مرتضی حسین دُربھنگی کا نام زیادہ نمایاں ہے۔
اس کے بعد تقریباً اڑھائی سال کے لئے حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ اوکاڑہ تشریف لائے گستاخانِ رسول اور قادیانیت و مرزائیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روک کر مسلک اہل سنت کا ایسا بول بالا کیا کہ اوکاڑہ کے درودیوار عظمت رسول ﷺ کے نعروں سے گونجنے لگے۔