فاضل جلیل، جامع المعقول والمنقول حضرت علامہ صاحبزادہ سید ارشد سعید کاظمی مدظلہٗ اپنے والدین کریمین کا دل وجان سے ادب واحترام بجا لاتے تھے۔ اپنے ذاتی معاملات ومصروفیات کو ان کی خدمت اور ادب واحترام کے ماحول میں کبھی حائل نہ ہونے دیتے تھے۔وہ اپنے ایک خاص مضمون میں اس امر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اباجی قبلہ کی بارگاہ اقدس میں بیتے ہوئے شب وروزکچھ یوں تھے ساری ساری رات ان کی بارگاہ میں حاضر رہا، درس وتدریس اور تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری رہتا، یہاں تک کہ اذان فجر ہوجاتی۔ رات دوبجے،تین بجے ان کے لئے چائے بناتا، رات کے کسی بھی پہر میں مہمانوں کی آمد پر ابا حضور کے حکم پر ان کے لئے کھانا پکوا کر یا گرم کر کے لے ا ٓتا۔
جبکہ وہ نوجوانی اور لڑکپن کا زمانہ تھا۔ اس زمانے کی نیند کتنی گہری ہوتی ہے ڈھول پیٹ دئیے جائیں، کتنا ہی ھلّاگُلا ہو جائے مگر آنکھ نہ کھلنا اور نیند نہ اُکھڑنا کوئی خیز امر نہیں مگر نہ معلوم کیا اور کیسی تاثیر تھی کہ ایک ذات جب ایک لفظ کو اپنے خاص لہجے میں ادا کرتی تو وہ لفظ کانوں کے پردوں سے گزرتا ہوا نوجوانی اور لڑکپن کی نیند کی مدہوشی کو جھنجھوڑتا ہوا رگ وپے میں اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ پھیل جاتا اور ہنگامہ پر تاثیر برپا کر دیتا ۔ پس دوسرے ہی لمحے میں اپنے
بستر سے اٹھ کھڑا ہوتا اور انتہائی عجلت میں بستر کے کسی گوشے میں پڑی ہوئی اپنی ٹوپی کو سر پر سنبھالتے ہوئے سر تا پا لبیک بنا ہوا اس آواز کی طرف دوڑا چلا جاتا۔
حضرت صاحبزادئہ والا مرتبت کی یہ چند سطور جن میں والدین کے احترام کا ذکر ہے بار بار پڑھنے کی دعوت دے رہے ہیں۔